واشنگٹن: امریکی پانیوں میں ایک بحری جہاز کواب 51 برس ہوچکے ہیں اور وہ کچھ اس انداز سے اپنی ہیئت بدلتا ہے کہ بار بار اس پر ڈوبتے جہاز کا گمان ہوتا ہے۔
اسے آرپی فلِپ کا نام دیا گیا ہے جو غرقاب ہوئے بغیرافقی اور عمودی شکل میں آسکتا ہے۔ اس کیفیت میں دیکھنے پر وہ ایک ڈوبتا ہوا جہاز دکھائی دیتا ہے۔ 108 میٹرطویل یہ سمندری عجوبہ اپنے اندر پانی بھر کر 90 فیصد تک ڈوب سکتا ہے اور سرف 17 میٹر حصہ ہی پانی سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اگلا چوڑا سرا بطور عرشہ کام کرتا ہے۔
فلپ کا ڈیزائن اسے اپنی جگہ سے ہٹنے نہیں دیتا اور یہ ایک تیرتے پیپے (بوائے) کی طرح کام کرتا ہے دوم اس کا بیرونی خول اسے الٹنے پلٹنے سے بچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلپ جہاز کو جہاز سازی کا شاہکار بھی کہا جاسکتا ہے۔
1960 میں فلپ کی تعمیر کا آغاز ہوا جس کا سہرا پورٹ لینڈ کی گنڈرسن برادرز انجینیئرنگ کمپنی کے سرجاتا ہے۔ اس کمپنی نے دو سال کی مدت میں اسے تیار کرکے 1962 میں پانی کے حوالے کردیا تھا۔ اب یہ کھلے پانیوں میں آزادانہ تیرسکتا ہے۔ صرف 30 منٹ میں یہ عمودی سے افقی پوزیشن میں آسکتا ہے جبکہ سمندر کی گہرائی میں جاکر آبدوز بھی بن سکتا ہے۔
فلپ ایک تحقیقی پلیٹ فارم ہے جس پر حساس ترین آلات نصب ہیں لیکن اس میں توانائی اور پروپلشن کا کوئی نظام موجود نہیں بلکہ اسے دوسرے جہاز سے کھینچ پر ساحل یا پھرپانی میں پہنچایا جاتا ہے۔ 700 ٹن وزنی اس عجوبے پر لگ بھگ 5 سے 11 افراد رہ سکتےہیں۔ ان میں زیادہ تر سائنسداں شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس بحری جہاز نے سمندروں اور وہاں کے آبی موسم کے متعلق ہماری معلومات میں پیش بہا اضافہ کیا ہے۔