دوران حمل خواتین میں متلی اور الٹیوں کا مسئلہ عام ہوتا ہے۔
اس مسئلے کے لیے طبی زبان میں مارننگ سکنس (sickness) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، مگر اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
اب پہلی بار اس کی ممکنہ وجہ دریافت کی گئی ہے جس سے اس کے علاج میں مدد مل سکے گی۔
خیال رہے کہ عام طور پر حمل کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس مسئلے کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔
امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ایک مخصوص ہارمون حاملہ خواتین میں متلی اور الٹیوں کی شکایت بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
80 فیصد حاملہ خواتین کو قے اور متلی جیسے اثرات کا سامنا ہوتا ہے اور کچھ میں اس کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ جی ڈی ایف 15 نامی ہارمون کی سطح حمل کی پہلی سہ ماہی کے دوران نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے۔
تحقیق میں قے اور متلی جیسی علامات کو اس ہارمون کی سطح میں اضافے سے منسلک کیا گیا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس ہارمون کی سطح میں کمی یا اس کے افعال کو بلاک کرنے سے مارننگ سکنس کی روک تھام بھی کی جا سکتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ زیادہ تر حاملہ خواتین کو مارننگ سکنس کا سامنا ہوتا ہے جو خوشگوار تو نہیں ہوتا مگر کچھ خواتین میں اس کی شدت بدترین ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے تو ایک ہارمون کی سطح بڑھتی ہے، ماں کا جسم اس ہارمون کا عادی نہیں ہوتا۔
محققین کے مطابق خاتون کا جسم اس ہارمون کے حوالے سے جتنا زیادہ حساس ہوگا، مارننگ سکنس کی شدت اتنی زیادہ ہوگی۔
تحقیق کے دوران مادہ چوہوں میں اس ہارمون کی سطح میں کمی لانے سے مارننگ سکنس کی روک تھام کا تجربہ کامیاب رہا تھا۔
اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے اس طریقہ کار کو خواتین میں آزمایا جائے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ طریقہ کار مارننگ سکنس کی روک تھام کے لیے کس حد تک مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔