آج کل بیشتر افراد کی وہ پسندیدہ غذا جو کینسر کا شکار بنا دے

 آج کل بیشتر افراد کی پسندیدہ غذا کینسر کا شکار اور اس بیماری سے موت کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔



یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ریسرچ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ الٹرا پراسیس غذاؤں کے زیادہ استعمال سے کینسر سے متاثر ہونے اور اس سے موت کا خطرہ بڑھتا ہے۔


الٹرا پراسیس غذاؤں میں ڈبل روٹی، فاسٹ فوڈز، مٹھائیاں، ٹافیاں، کیک، نمکین اشیا، بریک فاسٹ سیریلز، چکن اور فش نگٹس، انسٹنٹ نوڈلز، میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ شامل ہیں۔

ایک لاکھ 97 ہزار سے زیادہ افراد پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس طرح کی غذا پر ہمارا جسم اس طرح ردعمل ظاہر نہیں کرتا جیسا قدرتی غذاؤں پر کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق الٹرا پراسیس غذائیں پسند کرنے والے افراد سافٹ ڈرنکس کا استعمال بھی زیادہ کرتے ہیں جبکہ سبزیوں اور پھلوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے، جس سے بھی کینسر اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔


اس تحقیق میں شامل افراد کی غذائی عادات اور کینسر کی 34 مختلف اقسام کے درمیان تعلق کا جائزہ 10 سال تک لیا گیا۔

غذائی عادات کا موازنہ کینسر کی تشخیص اور اموات کے طبی ریکارڈز سے کیا گیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ الٹرا پراسیس غذاؤں کے استعمال میں ہر 10 فیصد اضافے سے کسی بھی قسم کے کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ 2 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق الٹرا پراسیس غذاؤں کے استعمال میں ہر 10 فیصد اضافے سے کسی بھی قسم سے کینسر سے موت کا خطرہ 6 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔


محققین نے بتایا کہ تمام تر عناصر جیسے سماجی، معاشی، تمباکو نوشی، جسمانی سرگرمیوں اور دیگر کو مدنظر رکھنے کے بعد بھی یہ تعلق برقرار رہا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل ای کلینیکل میڈیسین میں شائع ہوئے۔

یہ پہلی تحقیق نہیں جس میں الٹرا پراسیس غذاؤں کے استعمال سے کینسر سے متاثر ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔

2022 میں امریکا کی ٹفٹس یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ الٹرا پراسیس غذاؤں اور آنتوں کے کینسر کے درمیان تعلق موجود ہے۔



تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر طرح کی الٹرا پراسیس غذائیں کینسر کا شکار بنانے میں کسی حد تک کردار ادا کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ زیادہ مقدار میں الٹرا پراسیس غذائیں کھانے والے مردوں میں کینسر کا خطرہ 29 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

البتہ خواتین میں یہ خطرہ دریافت نہیں ہوسکا جس کی وضاحت محققین نہیں کرسکے۔

Previous Post Next Post