پشاور پولیس لائنز دھماکے میں شہدا کی تعداد 100 ہوگئی۔
ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور نے تصدیق کی ہےکہ اسپتال میں اب تک 100 لاشیں لائی جاچکی ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہےکہ بم دھماکے کے 53 زخمی زیرعلاج ہیں، جن میں سے 7 افراد آئی سی یو میں ہیں، تمام زخمیوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق مسجد کے ملبے تلے دبے مزید افراد کو نکالنےکے لیےآپریشن جاری ہے جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا جا رہا ہے۔
ریسکیو 1122 پشاور کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر نوید اختر کا کہنا ہےکہ حتمی طورپر نہیں کہا جاسکتاکہ آپریشن کب تک مکمل ہوسکےگا، سلیبس کو ہائیڈرولک کٹر کی مدد سے احتیاط سے کاٹا جارہا ہے تاکہ اگر کوئی اندر پھنسا ہوا ہے تو اس کی جان بچائی جاسکے جب کہ سنسرڈیوائسز لگا کر زندہ افراد کو چیک کیا جا رہاہے۔
پولیس لائنز دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور کے علاقے صدر پولیس لائنز میں نماز ظہر کے دوران خودکش حملہ کیا گیا، ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور مسجد کی پہلی صف میں موجود تھا۔
حملہ آور ایک دو دن سے اندر رہ رہا تھا: خواجہ آصف
اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیونیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ حملہ آور ایک، دو دن سے وہیں رہ رہا تھا، آئی جی نے بتایا کہ ہزار سے ڈیڑھ ہزار افراد پولیس لائنز میں رہتے ہیں، پولیس کا خیال ہےکہ اندرکوئی شخص حملہ آورکے ساتھ رابطے میں تھا۔
امکان ہے حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر آیا ہو، سی سی پی او پشاور
سی سی پی او پشاور کا کہنا ہےکہ پولیس لائنز میں ہونے والا واقعہ بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے، ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو، پولیس لائنز میں ایف آر پی،ایس ایس یو،سی ٹی ڈی سمیت 8 سےزائد یونٹس کے دفاتر ہیں، یہ بھی امکان ہے حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر آیا ہو۔