میری لینڈ: امریکا میں سائنس دانوں نے مریض کے اسٹیم خلیے (خلیاتِ ساق) اور تھری ڈی بائیو پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آنکھ کا ایک بافت (ٹشو) بنایا جو بینائی ختم ہونے کے امراض کے متعلق جدید فہم فراہم کرے گا۔
نیشنل آئی اِنسٹی ٹیوٹ(این ای آئی) سے تعلق رکھنے والی محققین کی ٹیم نے خلیوں کا ایک مرکب پرنٹ کیا جو پردہ بصارت کی بیرونی پرت (آؤٹر بلڈ ریٹینا بیریئر) بناتا ہے۔ یہ آنکھ کا وہ بافت ہوتا ہے جو پردہ بصارت کے روشنی کا احساس کرنے والے فوٹو ریسیپٹرز کو سہارا دیتا ہے۔
یہ تکنیک ایج ریلیٹڈ میکیولر ڈی جنریشن (اے ایم ڈی) جیسی پردہ بصارت کی بیماریوں کے مطالعے کے لیے نظریاتی طور پر مریض سے بنائے گئے بافت لامحدود مقدار میں فراہم کر سکتی ہے۔
این ای آئی کے اوکیولر اور اسٹیم سیل ٹرانسلیشنل ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر کپل بھارتی کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں اے ایم ڈی پردہ بصارت کی باہری پرت سے شروع ہوتا ہے تاہم، اے ایم ڈی کے شروع ہونے اور انتہائی خشک اور تر نہج تک پہنچ جانے کے میکینزم کی سمجھ انتہائی کم ہے جس کی وجہ عضویاتی اعتبار سے مناسب انسانی نمونوں کا نہ ہونا ہے۔
آؤٹر بلڈ ریٹینا بیریئر(او بی آر بی) ریٹِینل پِگمنٹ ایپیتھیلیم(آر پی ای) پر مشتمل ہوتی ہے جس کو بروچز جھلی خون کی رگوں سے بھرپور کوریو کیپیلاریز سے علیحدہ کرتی ہے، پروچز جھلی کوریو کیپیلاریز اور آر پی ای کے درمیان اجزاء کے تبادلے اور کچرے کو قابو کرتی ہے۔
اے ایم ڈی میں بروچز جھلی کے باہر لِپو پروٹین کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے فعلیت میں مشکل پیش آتی ہے۔ وقت کے ساتھ آر پی ای کا خراب ہونا فوٹو ریسیپٹر کو خراب کرتا ہے اور بصارت کے کھو جانے کا سبب بنتا ہے۔
اس تحقیق میں کپل بھارتی اور ان کے ساتھیوں نے تین ناپختہ کوروڈیل خلیوں کی اقسام کو ملا کر ایک ہائیڈروجیل بنایا۔ ان خلیوں میں پیریسائٹس، اینڈوتھیلیئل (جو شریانوں کے لیے اہم ہوتے ہیں) اور فائبروبلاسٹ (جو بافت کو ساخت دیتے ہیں) شامل تھے۔
سائنس دانوں نے اس جیل کو ایک بائیو ڈی گریڈایبل (ایسے مواد سے بنا جسے بیکیٹریا ختم کردیں اور آلودگی کا سبب نہ بنیں) فریم پر ڈھالا۔ چند ہی دنوں میں خلیے پختہ ہو کر ایک گنجان شریانوں کے جال میں بدل گئے۔
خلیوں سے گنجان جال تک پہنچنے کا یہ عمل 42 دنوں پر مشتمل تھا۔