ملبے کے ڈھیر غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل پرمغربی دباؤ اچانک بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پرحماس کے حیران کُن حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت اس قسم کی تنقید کی زد میں آئی ہے۔ اس سے پہلے تو ایک ایک روز میں 800، 800 فلسطینیوں کو شہید کیا جاتا رہا ہے مگر سب چُپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت جنگ بندی کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا یا فلسطینیوں کو؟ یہ بھی کہ جنگ بندی ہوگی کب اور شرائط کیا ہوں گی؟
16 اکتوبر کو میں نے جیونیوزانگریزی ویب سائٹ کے لیے کالم لکھا تھا جس میں اس جنگ کے سبب مشرق وسطیٰ کے راستے مجوزہ تجارتی راہداری کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا۔اسی مضمون میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ فوجیوں سمیت اپنے تقریبا دوہزار شہریوں کی حماس کے ہاتھوں ہلاکت کے جواب میں اسرائیل کم سے کم 20 ہزار فلسطینیوں کا خون تو بہا کر ہی دم لے گا۔
اس وقت چونکہ تقریباً 2800 فلسطینی شہید کیے گئے تھے۔ اس لیے 20 ہزار فلسطینیوں کی موت کا تصور بظاہر غیر معقول تھا۔ بعض افراد یہ بات ماننے کے لیے اس لیے بھی تیار نہ تھے کیونکہ انہیں نام نہاد مسلم امُہ کی غیرت بریگیڈ پر یقین تھا جو ان کے نزدیک فلسطینیوں کے حق میں آہنی ڈھال کی مانند کھڑی ہونا تھی۔
میرے نزدیک حقیقت پسندی اور تاریخ سے سبق زیادہ اہم تھا۔ میرے تخمینے کی بنیادی وجہ وہ 25 برس کا صحافتی تجربہ تھا جس میں مسلسل یہ نوٹ کیا تھا کہ اسرائیل اپنے ہر شہری کی موت کا بدلہ لیتے ہوئے کم سے کم دس فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے۔
بچوں کی دلچسپ کہانی 'بادشاہ ننگا نکلا' کی مثال دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ چونکہ حماس نے اسرائیل کو پہلی بار دنیا کے سامنے اس قدر کمزور ثابت کیا ہے، اس لیے یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اس بارمسلط کردہ تباہی کس قدر بھیانک ہوگی اور اس نسل کشی کے نتائج کیا ہوں گے؟
اب تقریباً 20 ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور 7 ہزار سے زائد لاپتا یا دوسرے لفظوں میں ممکنہ طورپر ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے کی وجہ سے مجموعی اموات 27 ہزار تک پہنچی ہیں تو جنگ کے اگلے مرحلے کا ذکر کرنے کا مناسب وقت آگیا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل 90 فیصد سے زائد فلسطینیوں کو جبراً بیدخل کرچکا ہے، 60 فیصد سے زائد عمارتیں اور مکانات کھنڈر بنا دیے گئے ہیں جو حماس کے جنگجوؤں کی محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ اب گوریلا جنگ جاری ہے جس میں اسرائیل کے ٹینکوں کو چند فٹ کے فاصلے سے ایسے ہدف بنایا جارہا ہے جیسے گلیوں، محلوں میں بچے کنچے کھیلتے ہیں۔ ایک ہی روز میں دوکمانڈرز سمیت 10 فوجیوں کا مارا جانا اس بات کی علامت ہے کہ حماس کی پوزیشن مضبوط ہونا اب شروع ہوئی ہے۔
وجہ یہ ہےکہ حماس کے جنگجوؤں نے اسی غزہ میں آنکھ کھولی ہے، انہی گلیوں میں پروان چڑھے ہیں، بہت بڑے جانی نقصان کا سامنا کیے بغیر انہیں گوریلا جنگ میں ہرانا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گھروں سے سرنگوں میں روپوش کیسے ہونا ہے۔
یہ جنگجو شمالی غزہ میں کئی ہفتوں سے خوراک کی فراہمی پر پابندی کے باوجود زندہ ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ کے باوجود اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی ویڈیوزبھی ہر روز پوسٹ کررہے ہیں یعنی ایک جنگجو راکٹ لانچر چلاتا ہے تو دوسرا اس منظر کو سکون سے فلم بند کرتا ہے۔
یعنی اسرائیل کو اب ایک ایسے چھلاوے کا سامنا ہوا ہے جس سے بچنا چیلنج ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کی جانب سے زمینی کارروائی کی منصوبہ بندی میں فاش غلطیوں کی واضح عکاس ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کی یہ بھی کوشش تھی کہ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، عراق میں فلسطینیوں کے ہمدردوں کو ایک ہی ساتھ کچلا جائے۔ حماس چونکہ ایران کی دھکتی رگ ہے، اس لیے ایران کو بھی جنگ میں کھینچ لیا جائے تاکہ پورے خطے کا نقشہ ایک ساتھ ہی بدل دیا جائے۔ مگر اسرائیل کی جانب سے جنگ کو پھیلانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ حزب اللہ نے ایک حد سے زیادہ کارروائی کی نہ ہی حوثیوں اور عراقیوں نے۔دھمکیاں دینے کے باوجود ایران بھی اسرائیل فلسطین جنگ میں نہیں کودا۔
ایران کے جنگ میں براہ راست شامل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایران اس وقت اسرائیل سے جنگ کی پوزیشن میں نہیں۔ اسرائیل پر بم برسا کر مختلف شہروں کو تباہ کرنا تو شاید ایران کے لیے آسان ہو مگر داخلی سلامتی یقینی بنانا کہیں بڑا چیلنج ہے۔
جنگ میں شامل ہونے سے گریز اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ ایران میں اس وقت 80 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین موجود ہیں جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں بڑی تعداد ایسے مرد افغانوں کی ہے جو اپنی فیملی کے بغیر رہ رہے ہیں۔
معیشت پران بن بلائے افغان مہمانوں کے ٹوٹ پڑنے سے پیدا اثرات اپنی جگہ، ان میں سےہزاروں ایسے بھی ہیں جو پیشہ ور جنگی تربیت رکھتے ہیں اور ایک اشارے پر چلتا پھرتا بم ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسی لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی غیرقانونی طورپرآئے افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے مگر ساڑھے 900 کلومیٹر طویل ایران افغان سرحد سے مسلسل داخل ہونے والوں کو روکنا تہران کے لیے ممکن ہی نہیں۔
ماضی کے مقابلے میں اس بار چین اور روس کا اسرائیل سے متعلق رویہ نسبتاً سخت تو رہا مگر ان دونوں طاقتوں میں سے کوئی بھی اسرائیل کیخلاف اس لیے کھڑا نہیں ہوا کیونکہ فلسطینیوں کیلئے عرب اور مسلم ممالک ہی جب زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ رہے ہوں تو ماسکو اور بیجنگ کے پیٹ میں مروڑ کیوں ہو؟
روس کے لیے اسرائیل فلسطین جنگ کا طویل ہونا اس لیے بھی بہتر ہوگا کیونکہ 7 اکتوبر کے بعد شاید ہی کسی نے یوکرین میں روسی فوجی کارروائیوں کا نام لیا ہو۔ ہر شخص کی توجہ فلسطین پر مرکوز ہے ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر ماسکو نے یوکرین میں اپنے قدم مزید مضبوط کیے ہیں۔
جنگ نہ پھیلنی تھی نہ پھیلی۔اب غزہ ہے، حماس ہے، اسرائیلی فوج اور آئے دن کی ہلاکتیں۔ ایسے میں جنگ کو لپیٹنے میں ہی اسرائیل کی عافیت ہے۔اسی لیے وہ مغربی ممالک جو فلسطینی آبادیوں پر گرتے بموں پر خاموش تھے، اچانک جاگے ہیں اور اسرائیل پرزور دینا شروع کیا ہے کہ انسانی حقوق کا خیال کیا جائے۔ ان میں سے کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ تمام تر بیدخل فلسطینیوں کو ان کے علاقوں میں پھر سےآباد بھی کیا جائے۔
امروہےسے تعلق رکھنےوالے ایک دانشور قائم علی کہا کرتے ہیں کہ جب بھی مسلم ملک پر بمباری ہوگی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اورمغربی دنیا خاموش رہے گی، جب مسلم ملک کو مارنے والے کی پٹائی شروع ہوگی تو مغربی ممالک کی غیرت بریگیڈ اچانک جاگے گی اور مسلم ملک کی تباہی پر ماتم کے بہانے ہائے توبہ مچاتی جنگ بندی کرادے گی۔
اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں یہ وقت کب آئے گا؟ اس کا دارومدار حماس کی گوریلا کارروائیوں کے موثر تر ہونے پر منحصر ہے۔