سائنسدانوں نے وہ طریقہ کار دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس سے بڑھاپے کو واپس جوانی میں بدلنا ممکن ہو سکتا ہے۔
امریکا کی Maine یونیورسٹی، ہارورڈ میڈیکل اسکول اور میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں کیا۔
تحقیق میں ایک ایسے کیمیائی طریقہ کار کے بارے میں بتایا گیا جو خلیاتی سطح پر عمر کے اثرات کو ریورس کر سکتا ہے۔
درحقیقت تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ مختلف کیمیکلز کے مکسچر سے خلیاتی عمر کو محض 4 دن میں ریورس کیا جا سکتا ہے۔
اب تک اس حوالے سے انسانوں پر کوئی کام نہیں کیا گیا بلکہ لیبارٹری میں انسانی خلیات کو استعمال کیا گیا۔
ابھی اس طریقہ کار کی آزمائش جانوروں پر کی جائے گی اور پھر جا کر انسانوں کی کلینیکل ٹرائلز کا آغاز ہوگا اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے قائد ڈیوڈ سنیکلیئر نے بتایا کہ ہم نے 6 کیمیکلز پر مشتمل کاک ٹیل کو شناخت کیا ہے جس سے ایک ہفتے کے اندر خلیاتی عمر ریورس ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف جینز کے ذریعے نہیں بلکہ کیمیائی طریقے سے بھی عمر کو ریورس کرنا ممکن ہے۔
اس تحقیق میں عمر بڑھنے سے خلیات پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی تھی اور دریافت ہوا کہ عمر بڑھنے سے خلیات کے افعال بتدریج غیر مؤثر ہونے لگتے ہیں۔
یہ تحقیقی ٹیم پہلے بھی اس حوالے سے کافی پیشرفت کر چکی تھی مگر پہلے وہ صرف جین تھراپی پر کام کر رہے تھے، جو کافی مہنگی اور متنازع ہے۔
یہی وجہ تھی کہ تحقیقی ٹیم کیمیکلز استعمال کرکے مثبت نتائج حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ اسے بعد میں ایک دوا یا تھراپی میں تبدیل کیا جا سکے۔
محققین نے بتایا کہ اس سے پہلے ہم صرف عمر بڑھنے کا عمل سست کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر نئی دریافت سے عندیہ ملتا ہے کہ اب ہم اس عمل کو ریورس بھی کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس کے لیے جین تھراپی کی ضرورت تھی جس کو بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
تحقیق کے دوران 6 مختلف کیمیکلز کے مکسچر کو استعمال کرکے زیادہ عمر کے انسانی خلیات کو نوجوان خلیات میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔
تحقیقی ٹیم کی جانب سے ان کیمیکلز سے تیار ہونے والی کاک ٹیل کی ترکیب کو ظاہر نہیں کیا۔
ڈیوڈ سنیکلیئر نے بتایا کہ اس نئی دریافت سے صرف ایک گولی سے بڑھاپے کو جوانی میں بدلنے کا امکان نظر آیا ہے اور اس سے عمر بڑھنے سے لاحق ہونے والے متعدد امراض کے علاج میں بھی مدد مل سکے گی۔
مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ خلیات پر یہ نیا طریقہ کار ضرور مؤثر ثابت ہوا ہے مگر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ابھی کافی کام کرنا باقی ہے۔