واشنگٹن: سمندر کی تہہ میں ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے لیے سیاحتی سفر پر جانے والی آبدوز ’’ٹائٹن‘‘ کا جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس ہونے کے باوجود 18 جون کو اپنے سفر کے محض پونے دو گھنٹے بعد ہی رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور وہ تاحال لاپتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ماہرین حیران ہیں کہ 7 بیک اپ سسٹم، جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس آبدوز آخر کیسے لاپتا ہوگئی۔ یہ وہ سوال ہے جو آج کل ہر ایک کی زبان پر ہے۔
سوئے اتفاق کہ جس جہاز یعنی ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے یہ آبدوز جا رہی تھی اس جہاز کے بارے میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹائی ٹینک کو کوئی بھی ڈبو نہیں سکتا۔
امریکی صحافی جو گزشتہ برس اس آبدوز میں سفر کرچکے ہیں نے بتایا کہ آبدوز میں رابطوں کا نظام نہایت مؤثر اور جدید ترین ہے۔ اس کے لیے 2 نظام استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک سے ٹیکسٹ پیغامات سطح پر موجود کشتی یا بحری جہاز کو موصول ہوتے ہیں اور دوسرا حفاظتی آواز یا سگنلز ہیں۔
صحافی کے مطابق ہر 15 منٹ بعد خارج ہونے والی حفاظتی آوازیں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آبدوز صحیح کام کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ آبدوز کے 18 جون کو سفر کے آغاز کے صرف پونے دو گھنٹے بعد ہی مواصلات (پیغام رسانی) کے یہ دونوں نظام بند ہوگئے تھے۔
جب آبدوز میں سفر کرنے کا تجربہ رکھنے والے امریکی صحافی سے پوچھا گیا کہ مواصلاتی نظام میں خرابی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا نظام منقطع ہوگیا ہوگا یا دباؤ کے باعث پھٹ گئی ہوگی۔
امریکی صحافی کے مطابق یہ دونوں وجوہات نہایت افسوسناک اور خطرناک ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ آبدوز ٹائٹن کو اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ کسی بھی وجہ سے کوئی مسافر بے ہوش بھی ہو جائے تو آبدوز سمندر کی سطح پر واپس آجاتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ آبدوز سے متعلق اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں لیکن حقائق کا علم آبدوز کا سراغ لگنے کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔