امریکا اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو غیر ملکیوں کی جاسوسی کیلئے استعمال کرتا ہے، رپورٹ

 امریکا کے قانون سازوں کی جانب سے ٹک ٹاک پر ملک گیر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ ان کے خیال میں چین اس مقبول سوشل میڈیا ایپ کو امریکی شہریوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔



مگر امریکی قانون ساز یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کس طرح امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو دنیا کے ہر فرد کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتی ہے۔


الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے امریکا میں 15 کروڑ سے زیادہ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں اور امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین اس پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہے ہیں۔


مگر اس کے ساتھ ساتھ گوگل، میٹا اور ایپل جیسی کمپنیوں کو بیرون ملک رہنے والے غیر امریکی شہریوں کی جاسوسی کے لیے مزید مجبور کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔


فارن انٹیلی جنس سرویلنس ایکٹ (فیکا) کے سیکشن 702 کے تحت امریکی انٹیلی جنس اداروں کو اجازت ہے کہ وہ بغیر وارنٹ کے غیر ملکی شہریوں کے فونز، ای میل اور دیگر آن لائن ذرائع کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔


اس قانون کی تجدید ہونے والی ہے اور اس میں مزید تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔


امریکی آئین کی چوتھی ترمیم کے تحت امریکی شہریوں کو کچھ تحفظ حاصل ہے مگر امریکی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس طرح کے حقوق کا اطلاق بیرون ملک رہنے والے غیر ملکی افراد پر نہیں ہوتا، جس سے امریکی انٹیلی جنس اداروں کو ان کی جاسوسی کی مکمل آزادی مل جاتی ہے۔


انٹرنیٹ پر راج کرنے والی بیشتر کمپنیاں جیسے گوگل، میٹا، ایمازون اور مائیکرو سافٹ کا تعلق امریکا سے ہے اور سیکشن 702 کے باعث امریکا سے باہر رہنے والے اربوں انٹرنیٹ صارفین کی پرائیویسی کو تحفظ حاصل نہیں۔


صارفین کی پرائیویسی حقوق کے لیے سرگرم ٹیکنالوجی ماہر Asher Wolf کے مطابق 'امریکی مؤقف یہ ہے کہ قانون ہمارے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے ہوتا ہے'۔


انہوں نے مزید کہا کہ ٹک ٹاک کے حوالے سے امریکی احتجاج شہریوں کو جاسوسی سے بچانے کی مخلصانہ خواہش کی بجائے سوشل میڈیا پر اپنے کنٹرول کو مستحکم رکھنے کی کوشش نظر آتا ہے۔


امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کے اختیار اور سیکشن 702 کی تجدید کے لیے کام کیا جا رہا ہے اور اس سیکشن کو امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے اہم ترین ٹول قرار دیا گیا ہے۔


امریکا کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی بائیٹ ڈانس سوشل میڈیا ایپ کو فروخت کر دے۔


اس حوالے سے گزشتہ دنوں ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو Show Zi Chew امریکی کانگریس کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور وہاں اراکین کے ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی خدشات کے حوالے سے سوالات کے جواب دیے۔


کانگریس کے اسپیکر کیون میکارتھی نے ایک بیان میں بتایا کہ امریکی شہریوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے ٹیکنالوجی حامیوں سے بچانے کے لیے قانون سازی میں پیشرفت کی جائے گی۔


امریکی حکومتی ڈیوائسز پر پہلے ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد ہوچکی ہے اور ایسا کینیڈا، ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور کئی ممالک میں دیکھنے میں آیا ہے۔


مگر ٹک ٹاک کو خطرہ قرار دینے کے دوران غیر امریکی شہریوں کے پرائیویسی حقوق کا حوالہ نہیں دیا جا رہا۔


امریکن سول لبرٹیز یونین کے تخمینے کے مطابق امریکی حکومت 2011 سے ہر سال ایک ارب سے زیادہ آن لائن کمیونیکیشنز کا ڈیٹا جمع کرتی ہے۔


امریکی آئینی ماہر Jonathan Hafetz نے بتایا کہ ٹک ٹاک اور چین پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکا بھول جاتا ہے کہ وہ بھی بہت زیادہ ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے۔


چین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ٹک ٹاک کی جبری فروخت کی سختی سے مخالفت کی جائے گی اور اس طرح کے اقدامات سے امریکا میں سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوگا۔


سیکشن 702 کو 2008 میں متعارف کرایا گیا اور 2012 اور 2018 میں اس کی تجدید بھاری اکثریت سے ہوچکی ہے مگر اس بار قانون کی حمایت میں کمی آئی ہے۔


میٹا، ایپل اور گوگل کی جانب سے سیکشن 702 میں تبدیلیوں کے لیے لابنگ کی جا رہی ہے۔


اگرچہ اس سیکشن کا مقصد غیر ملکیوں کے رابطوں کو ہدف بنانا ہے مگر اس کے تحت غیر ملکیوں سے رابطے میں رہنے والے امریکی شہریوں کی جاسوسی بھی کی جاسکتی ہے۔


امریکی حکام کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ قانون قومی سلامتی کے لیے اہم ہے۔


کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کی جانب سے ڈیٹا جمع کرنے کا طریقہ کار دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کچھ زیادہ مختلف نہیں اور اس پر پابندی کی کوششیں بڑے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

Previous Post Next Post