گزشتہ سال ماہ ستمبر میں جب چین کے لیے رختِ سفر باندھا تو اس وقت کے قانون کے تحت میں براہ راست بیجنگ نہیں پہنچ سکتا تھا، لہٰذا پہلے مجھے اسلام آباد سے چین کے صوبے شیان آنا پڑا اور شیان میں 10 روز قرنظینہ کے بعد بذریعہ فاسٹ ٹرین بیجنگ۔
بیجنگ پہنچنے کے بعد بھی 3 روز کا قرنطینہ لازمی تھا، یوں 13 روز میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے یا بند گاڑی اور ٹرین سے ہی چین کو دیکھتا رہا اور دوستوں سے چین کے بارے میں سنتا رہا۔
دوستوں سے یہاں کے بارے میں جو معلومات ملیں وہ بھی حیرت کے اظہار کے لیے کم نہیں تھیں لیکن تجسس ضرور تھا کہ جب خود تمام مراحل سے گزروں گا تو وہ تجربہ کیسا ہو گا؟
قرنطینہ کے بعد جب پہلی مرتبہ بیجنگ کی ہوا کو آزادی کے ساتھ محسوس کیا اور یہاں کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو حیرت کے کئی در وا ہوئے۔ یہاں کی ترقی، نظام اور حالات پر کسی اور تحریر میں مفصل بات ہو گی لیکن جس نئی چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ کرنسی کا استعمال تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دن رات کے کھانے پر میں نے اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ کسی تندور کا کوئی پتا ہو تو بتائیں تا کہ وہاں سے روٹی لی جا سکے اور بھوک مٹائی جا سکے۔ ایک سینیئر ساتھی شاہد افراز نے مجھے ساتھ لے جانے کی پیشکش کی اور میں ان کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
یہ علاقہ شی جنگ شان تھا اور جس جگہ شاہد افراز مجھے لے جا رہے تھے وہ علاقہ سڑک سے اندر کی جانب تھا۔ بڑی سڑک سے جب ملحقہ سڑک کا راستہ اختیار کیا تو کچھ پرانی تعمیرات نے استقبال کیا لیکن حیرت یہ تھی کہ ان پرانی تعمیرات میں بھی صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام تھا۔
کچھ فاصلہ طے کر کے جب ہم تندور پر پہنچے تو پہلی حیرت وہاں کے کام کرنے والے تھے۔ یہ ایک مکمل خاندان ہے جس میں مرد اور خواتین مل کر اس تندور کو چلاتے ہیں۔خواتین کا بھی کام میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ مرد کا۔ اکثر غیر ملکی دوستوں کا یہاں یہی خیال ہے کہ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے اس ملک کی ترقی کا راز یہی ہے کہ یہاں مرد اور عورت کے کاموں میں تخصیص یا امتیاز نہیں ہے۔
تندور پر چانگ نامی شخص اور اس کا خاندان انتہائی ہنس مکھ اور خوش اخلاق ہیں۔یہ آنے والے ہر گاہک کا گرم جوشی اور مسکراہٹ سے استقبال کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا کام بھی جاری رکھتے ہیں۔ ہم نے انہیں انگلیوں کے اشارے سے سمجھایا کہ ہمیں دو عدد روٹیاں درکار ہیں جو کچھ ہی دیر میں ہمیں فراہم کر دی گئیں لیکن میری اصل حیرت یہاں سے شروع ہوئی جب چانگ نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے وی چیٹ ا کاؤنٹ کے کیو آر کوڈ کی جانب اشارہ کیا۔
یہ اشارہ اس بات کی نشاندہی تھا کہ چانگ جیسا ایک عام دکاندار جو ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنا کاروبار کر رہا ہے وہ بھی لین دین کے معاملات کو ڈیجیٹل کرنسی میں اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کا طریقہ ہی ہے کہ آپ اپنے موبائل سے مختلف ایپلیکیشنز کے ذریعے کسی بھی فرد، دکاندار، اسٹور یا کمپنی کا کیو آر کوڈ اسکین کرتے ہیں یا اپنا کیو آر کوڈ انہیں اسکین کرنے کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں اور رقم اپنے موبائل کے ذریعے اپنے بینک اکاؤنٹ سے ادا کر دیتے ہیں۔
یوں بینکنگ سسٹم بھی اس ادائیگی میں شامل رہتا ہے اور کاغذ پر مشتمل کرنسی کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ بیجنگ میں روز مرہ استعمال کی اشیاء کی خریداری کے لیے کسی ڈپارٹمنٹل اسٹور میں بل کی ادائیگی،مہنگے سے مہنگے یا عام سے لباس کی خریداری، پھلوں سبزیوں کی خریداری ،پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ہو یا پھر کسی ایسے ہی عام سے تندور سے روٹی ہی کیوں نہ خریدنی ہو۔ آپ ادائیگی اپنے موبائل سے ڈیجیٹل کرنسی کی صورت میں ہی کرتے ہیں۔
چین نے مئی 2020 میں اپنے شہروں شینزین، سوزوآ، چینگ ڈو، بیجنگ اور ژیاؤنگ آن میں آزمائشی بنیادوں پر دنیا کی پہلی ڈیجیٹل کرنسی کا آغاز کیا۔ مئی 2020 کے اس آزمائشی استعمال کے بعد اب مذکورہ شہروں میں اس کا استعمال کامیاب اور عام ہو نے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں اس استعمال کو پھیلا بھی دیا گیا ہے اور حالیہ جشن بہار کی تعطیلات کے دوران ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال میں نئے شہروں میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس ڈیجیٹل کرنسی کے آغاز میں مئی 2020 کے مہینے میں یہ اعلان کیا گیا کہ آزمائش کے لیے چنے گئے شہروں میں مئی کی تنخواہ ڈیجیٹل کرنسی کی شکل میں ہی ملے گی اور ڈیجیٹل کرنسی کو موبائل فون ایپ کے ذریعے استعمال کیا جاسکے گا۔ اس سے قبل بھی چین میں نجی طور پر کئی ادارے ڈیجیٹل کرنسی کی سہولت استعمال کر رہے تھے لیکن وہ روایتی کرنسی کا متبادل نہیں تھے۔
کیوں کہ سرکاری طور پر ڈیجیٹل کرنسی کو پہلی مرتبہ روایتی کرنسی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جانا تھا، اس لیے چین کے مرکزی بنیک نے ڈیجیٹل کرنسی/ الیکٹرانکس پیمنٹس (ڈی سی ای پی) کا استعمال محدود پیمانے پر کیا ۔اس کی چند امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
ڈی سی ای پی کو صرف حکومت تخلیق اور کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی بنیادی ٹیکنالوجی مختلف ہے۔ بلاک چین لیجر کو حکومت کنٹرول کرتی ہے اور سسٹم میں کسی دوسرے کو اختیار نہیں دیا جاتا۔ ڈی سی ای پی موجودہ کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اسے پورے معاشی نظام کیساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
چین کی تیار کردہ کرنسی ڈی سی ای پی کا تجارت میں استعمال امریکی ڈالر کی اجارہ داری کیلئے ایک خطرہ تھا جسے طاقتور ممالک اور قوتیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔
یہ خودمختار ڈیجیٹل کرنسی مستقبل میں ڈالر کی بنیاد پر قائم تجارتی نظام کا ایک عملی متبادل ہو سکتی ہے۔
ملکی سطح پر اس کے استعمال میں آنے سے حکومت کو جہاں مشکلات پیش آئیں وہیں کچھ آسانیاں بھی میسر آگئی ہیں۔ جن شہروں میں اب تک یہ ڈیجیٹل کرنسی استعمال ہو رہی ہے وہاں کاروبار کرنے والے اور دیگر عام افراد کی آمدن اور اخراجات کا ریکارڈ خود بخود ڈیجیٹلائز ہو گیا ہے ۔ٹیکس نیٹ کے نظام میں آسانی اور اس کے متبادل سہولیات کی فراہمی میں بھی متعلقہ محکموں کو سہولت حاصل ہو گئی ہے۔ چین کا ڈیجیٹل کرنسی کی جانب یہ قدم انتہائی بر وقت معلوم ہو تا ہے لیکن کیا دوسرے ممالک اس اقدام کی پیروی کریں گے؟
پاکستان سمیت ان تمام ممالک میں جہاں افراد کی آمدن، محصولات کی ادائیگی، کاروباری اداروں اور کمپنیز کے لین دین سمیت چھوٹے کاروباری افراد کی آمدن کے ریکارڈز حاصل کرنے اور انہیں ڈیجٹلائز کرنے میں ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال سے مدد م مل سکتی ہے وہیں ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن اور ملکی معیشت کو نقصان دینے والے مال کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کبھی ہو پائے گا؟