کیا آپ کو معلوم ہے کہ خواتین کی شرٹس میں بٹن بائیں جبکہ مردوں کی قمیضوں میں دائیں جانب ہوتے ہیں؟
جی ہاں واقعی مردوں اور خواتین کی شرٹس اور جیکٹس کا انداز ہی مختلف نہیں ہوتا بلکہ بٹنوں کی پوزیشن بھی بالکل مختلف ہوتی ہے۔
مردوں کی شرٹ پر بٹن دائیں جانب ہوں گے جبکہ خواتین کی شرٹ پر وہ بائیں جانب نظر آئیں گے۔
ویسے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر عجیب ضرور ہے کیونکہ دنیا بھر میں زیادہ تر افراد رائٹ ہینڈڈ ہوتے ہیں۔
اس کے پیچھے چھپی وجوہات اس سے بھی زیادہ عجیب اور دلچسپ ہیں۔
اس کو جاننے کے لیے چند سو سال پیچھے جانا ہوگا۔
ویسے تو اس کا آغاز کب ہوا وہ تو واضح نہیں مگر تاریخ دانوں نے اس حوالے سے چند خیالات پیش کیے ہیں۔
ان میں جو سب سے زیادہ مقبول ہے اس کے مطابق ماضی میں (13 ویں صدی کے بارے میں سوچیں) لباس پر بٹنوں کا استعمال وہی افراد کرسکتے تھے جو اس کا خرچہ اٹھانے کے قابل ہوتے تھے۔
عام افراد ملبوسات کو پٹی سے باندھ لیتے تھے یا لکڑی کی ڈنڈیوں کا سہارا لیتے تھے۔
جہاں تک بٹنوں والے ملبوسات کی بات ہے تو ان کا استعمال اعلیٰ طبقے میں زیادہ ہوتا تھا۔
اس زمانے میں مغربی خواتین کے لباس ایسے پیچیدہ ہوتے تھے کہ اعلیٰ طبقے کی خواتین کو بٹن لگانے کے لیے ملازماؤں کی مدد لینا پڑتی تھی۔
اب درزیوں کو علم ہوتا تھا کہ اس لباس کے بٹن اسے پہننے والی خاتون کی بجائے ایک ملازمہ بند کرے گی تو وہ بٹنوں کو بائیں جانب لگا دیتے تھے تاکہ ملازمہ دائیں ہاتھ سے آسانی سے بند کرسکے، بتدریج یہ روایت بن گئی۔
جب ان ملبوسات (بٹنوں والے) کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جانے لگا تو یہ روایت عام ہوگئی اور آج تک کسی نے بھی اسے بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا۔
اس حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ زیادہ تر خواتین رائٹ ہینڈڈ ہوتی تھیں اور وہ اپنے بچے کو بائیں ہاتھ میں اٹھاتی تھیں، اسی وجہ سے بٹن کو بائیں جانب منتقل کردیا گیا۔
ایک اور دلچسپ خیال گھڑ سواری سے جڑا ہے، اس زمانے میں خواتین گھڑسواری سیکھنے کے لیے بالکل ایسے بیٹھتی تھیں جیسے آج کل موٹرسائیکل میں بیٹھی نظر آتی ہیں یعنی سائیڈ میں دونوں پیر لٹکا کر۔
تو بائیں جانب بٹن لگانے سے ہوا سے لباس اڑنے کا امکان کم ہوتا تھا۔
تو پھر مردوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ تو اس کا جواب جنگوں میں چھپا ہوا ہے۔
فوجی اپنے دائیں ہاتھ میں تلوار تھامتے تھے اور بایاں ہاتھ خالی ہوتا تھا یا اس سے ڈھال پکڑی ہوئی ہوتی تھی۔
فوجی اپنے دائیں ہاتھ سے ہتھیار نکالتے تھے تو ان کے لباس میں بٹنوں کو ایسے لگایا گیا کہ ہتھیار نکالنے کے بعد بائیں ہاتھ سے آسانی سے بٹن بند کرسکیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ خواتین نے مردوں جیسا لباس پہننا شروع کردیا تھا تو مردوں اور خواتین کے ملبوسات میں فرق کے لیے بٹنوں کا سہارا لیا گیا۔
اب حقیقی وجہ جو بھی ہو مگر یہ واضح ہے کہ صدیوں سے مردوں کی شرٹس میں بٹن دائیں جبکہ خواتین کی شرٹس میں بائیں جانب لگائے جارہے ہیں اور اس میں تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں۔