کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک گانا درجنوں خودکشیوں کا باعث بن سکتا ہے؟
تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ایک گانے گلومی سنڈے کو ایک سو سے زیادہ خودکشیوں سے منسلک کیا جاتا ہے جن میں سے ایک خودکشی اس شخص کی تھی جس نے گانے کو کمپوز کیا۔
اب اس گانے نے درجنوں افراد کو خودکشی پر مجبور کیا یا نہیں، اس کی حقیقت تو معلوم نہیں مگر ایک بات یقینی ہے کہ گانے کے کمپوزر Rezso Seress نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود کیا اور اس کے سب سے زیادہ کامیاب گانے نے ممکنہ طور پر اس میں کردار ادا کیا۔
بہت، بہت زیادہ المیہ گانا
Rezso Seress یورپی ملک ہنگری میں پیدا ہوئے اور 1933 میں (جب ان کی عمر 34 سال تھی) وہ ایک ناکام گیت نگار تھے۔
کچھ روایات کے مطابق وہ اس وقت پیرس میں مقیم تھے جبکہ کچھ کے مطابق وہ بڈاپسٹ کے رہائشی تھے۔
داستانوں کے مطابق اس زمانے میں ان کی گرل فرینڈ انہیں چھوڑ کر چلی گئی جس کے نتیجے میں وہ ڈپریشن کے شکار ہوگئے اور ایک گیت کی دھن تحریر کی جسے گلومی سنڈے کہا گیا، جس کی عرفیت ہنگرین سوسائیڈ سونگ ہے۔
اس دھن کے بہت زیادہ اداس کردینے والے بول Rezso Seress کے دوست Laszlo Javor نے تحریر کیے۔
کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ Laszlo Javor کی گرل فرینڈ انہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں انہوں نے دھن سے متاثر ہوکر ایک نظم تحریر کی۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ Rizso Seress نے اس گیت کو خود تحریر کیا جو جنگ اور قیامت کے بارے میں تھا جس کو بعد میں Laszlo Javor نے دل شکن گیت میں بدل دیا۔
حقیقت جو بھی ہو مگر آغاز میں یہ گیت زیادہ توجہ کا مرکز نہیں بن سکا تھا، مگر 2 سال بعد گلوکار پال کالمر کی آواز میں اس کا ریکارڈڈ ورژن ہنگری میں متعدد خودکشیوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔
اس کے بعد مبینہ طور پر گانے پر پابندی عائد کردی گئی۔
خیال رہے کہ 1930 کی دہائی میں ہنگری میں اخبارات کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی تو اس گانے سے متعلق داستانوں یا روایات کی تصدیق کرنا ممکن نہیں۔
ویسے بھی ہنگری وہ ملک ہے جہاں خودکشیوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ قرار دی جاتی ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق اس یورپی ملک میں ہر ایک لاکھ میں سے 46 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرتے ہیں۔
مگر اس بات سے انکار نہیں کہ ایک گانا خودکشیوں کی وجہ بننا ایسی اسٹوری تھی جو توجہ کا مرکز بنی اور بعد ازاں اس گانے کا انگلش ترجمہ بھی سامنے آیا۔
سام لوئس نے اسے انگلش زبان میں گایا اور گانے کے مایوس کردینے والے بولوں کو حقیقی الفاظ کے قریب تر رکھا۔
1941 میں بلی ہولی ڈے نے گلومی سنڈے کا حتمی ورژن ریکارڈ کرایا جس میں دکھائی جانے والی خاتون نے اس گیت سے جڑی روایات کو ایک نئی زندگی دی۔
ویسے تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکا میں اس گانے پر پابندی عائد کی گئی تھی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، البتہ برطانیہ میں صرف اس کی دھن کو چلانے کی اجازت تھی یا کم از کم ایسا دعویٰ ضرور سامنے آیا ہے۔
1999 میں ایک جرمن فلم میں ایک ایسے گانے کی کہانی بیان کی گئی جو متعدد خودکشیوں کا باعث بن گیا جس سے ایک بار پھر گلومی سنڈے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
ریزسو سیریس نے خودکشی کیوں کی تھی؟
دوسری جنگ عظیم کے دوران ریزسو سیریس کو جرمن لیبر کیمپ میں ڈال دیا گیا تھا جہاں وہ زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔
اس کے بعد انہوں نے تھیٹر اور سرکس میں کام کیا جہاں وہ جمناسٹک کے کرتب دکھاتے تھے۔
بعد ازاں وہ پھر گیت نگاری کرنے لگے مگر کبھی گلومی سنڈے جیسا ہٹ گیت نہیں لکھ سکے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ جب یہ گانا کامیاب ہوا تو نے اپنی گرل فرینڈ سے تعلق بحال کرنے کی کوشش کی مگر انہیں علم ہوا کہ اس لڑکی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی جبکہ گانے کی دھن کی شیٹ اس کے قریب موجود تھی۔
اس کہانی کے ایک اور ورژن کے مطابق اس لڑکی نے خودکشی کرلی تھی اور ایک خط چھوڑا تھا جس پر بس گلومی سنڈے تحریر تھا۔
اب یہ حقیقت ہے یا نہیں مگر اپارٹمنٹ بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی جس کی وجہ معلوم نہیں۔