کیا آپ نے کبھی سوچا کہ زیادہ تر مرد برتن یا کپڑے دھونے جیسے گھریلو کام کیوں نہیں کرتے؟
اس سوال کا جواب سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں دیا ہے۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ خواتین گھر کے زیادہ تر کام اس لیے کرتی ہیں کیونکہ مردوں کو کچرا یا دیگر کام 'نظر' ہی نہیں آتے۔
ان کے مطابق اگرچہ مردوں کو بھی کچن میں گندے برتنوں کا ڈھیر نظر آتا ہے مگر خواتین اس ڈھیر کو کرنے والے کام کے طور پر دیکھتی ہیں اور ان کے اندر صفائی کی خواہش بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مردوں اور خواتین کی تربیت کے باعث ان کا دماغ بچپن سے ہی مختلف انداز سے کام کرنے لگتا ہے۔
خواتین کے اندر ہر جگہ کو صاف رکھنے کی ایک وجدانی خواہش موجود ہوتی ہے جبکہ مردوں کو کمرے میں کپڑوں کا ڈھیر نظر آئے تو بھی ان کے اندر جگہ کو ٹھیک کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے یہ تحقیق کی گئی تھی کہ آخر خواتین ہی زیادہ گھریلو کام کیوں کرتی ہیں اور مرد اس عدم توازن کو دیکھنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ مردوں اور خواتین کے اس فرق کے پیچھے affordance theory موجود ہے، یعنی اشیا اور صورتحال کے حوالے سے ہمارا ردعمل یا نظریہ اس حوالے سے اثرات مرتب کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ متعدد گھریلو کاموں کو خواتین اپنا ذمہ سمجھتی ہیں اور مردوں کا ردعمل بالکل مختلف ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خیال کی حمایت سائنس نے بھی کی ہے اور دماغی سائنس سے ثابت ہوا ہے کہ انسانی نظریہ یا ردعمل ہی ہمیں جسمانی سرگرمی کے لیے تیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس خیال کا اطلاق گھر پر کیا جائے تو مردوں کے کام نہ کرنے کی وضاحت ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بچپن میں جس طرح بچوں کی پرورش کی جاتی ہے اور صفائی یا دیگر گھریلو کاموں کو لڑکیوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے جوانی میں مرد اور خواتین گھریلو کاموں کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ مرد گھریلو کاموں کو خواتین کی طرح نہیں دیکھتے مگر وہ ان کو کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل Philosophy and Phenomenological Research میں شائع ہوئے۔