جگر کی چربی، دماغ کے لیے شدید نقصان دہ ہوسکتی ہے

  لندن: جگر پر غیرمعمولی چربی دنیا بھر میں عام ہے جس کی شدید نوعیت جگر کے کئی امراض کی وجہ بنتی ہے اور اب ماہرین نے اس کا تعلق دماغی اور ذہنی صحت سے بھی جوڑا ہے کیونکہ اس کا اثر نفسیات پر ہوسکتا ہے۔



کنگز کالج لندن سے وابستہ پروفیسر راجر ولیمز اور سوئزرلینڈ کے جامعہ لیوزین کے ماہرین نے بتایا کہ نان الکحلکفیٹی لیور ڈیزی (این اے ایف ایل ڈی) سے دماغ میں آکسیجن کی فراہمی کم ہوجاتی ہے جس سے دماغی بافتوں میں سوزش (انفلیمیشن) بڑھ جاتی ہے اور یوں دماغ کو کئی لحاظ سے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دنیا کی 25 فیصد آبادی اور 80 فیصد موٹے افراد این اے ایف ایل ڈی کے شکار ہیں جس کی وجہ ورزش سے دوری، فاسٹ فوڈ اور طرزِ زندگی ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جگر پر جمع ہونے والی چکنائیاں دماغ کے لیے بھی شدید مضر ہوسکتی ہیں۔

اس ضمن میں ماہرین نے چوہوں کو دوگروہوں میں تقسیم کیا، ایک کی غذا میں 10 فیصد کیلوریز چکنائی سے فراہم کی گئیں جبکہ دوسرے گروہ جتنی کیلیوریز کھا رہا تھا اس کی 55 فیصد مقدار چکنائیوں اور روغنیات پر مشتمل تھی جو پروسیس شدہ کھانوں اور سافٹ ڈرنکس کو ظاہر کر رہی تھیں۔

16 ہفتے بعد چوہوں کے دونوں گروہوں پر کئی طرح کے ٹیسٹ کیے گئے بالخصوص ان کے جگر اور دماغی افعال کا جائزہ لیا گیا۔ زیادہ چکنائی کھانے والے تمام چوہوں میں این اے ایف ایل ڈی کی کیفیت پیدا ہوگئی، انسولین سے مزاحمت بڑھی اور دماغی افعال بھی بری طرح متاثر ہوئے۔


ایسے چوہوں کے دماغ میں آکسیجن کی مقدار کم کم دیکھی گئی اور اس میں سوزش بڑھ گئی۔ اس کے بعد چوہوں کا سکون ختم ہوگیا اور وہ ڈپریشن میں جانے سے بے چین رہنے لگے۔


لیکن جن چوہوں کو کم چربی والی (10 فیصد) غذائیں دی گئی تھیں ان کے جگر کی نہ چربی بڑھی نہ ہی انسولین کا توازن بگڑا اور دماغ بھی تندرست رہا۔ لیکن جگر کی چربی کے منفی دماغی اثرات ضرور سامنے آگئے کیونکہ یہ سلسلہ دھیرے دھیرے برسوں تک جاری رہتا ہے اور دماغ متاثر ہوتا رہتا ہے۔


تاہم اس کی مزید سائنسی وجوہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے لیکن خیال ہے کہ جگر کی چربی سے خود ایک مشہور اور اہم پروٹین ایم سی ٹی ون کی پیداوار کم ہوجاتی ہے اور یوں دماغ کو توانائی نہیں پہنچ پاتی۔ اس طرح جگر کی چربی ڈپریشن اور دماغی افعال میں کمی کی وجہ بن سکتی ہے۔

Previous Post Next Post