اگر لوئیڈ اولسن کے اندر اپنی ساس کو خوش کرنے کی خواہش نہ ہوتی تو دنیا کو ایک ایسے مرغے کو دیکھنے کا موقع نہیں ملتا جو سر کٹنے کے بعد بھی زندہ بچ گیا۔
یہ 10 ستمبر 1945 کی بات ہے جب لوئیڈ اولسن کی ساس رات کے کھانے پر کولوراڈو کے علاقے Fruita میں واقع اپنی بیٹی کے گھر آنے والی تھی۔
ان کو فرائیڈ چکن پسند تھا تو لوئیڈ اولسن نے اس مقصد کے لیے 4 ماہ کے مرغے مائیک کا سر کاٹ دیا۔
مگر باصلاحیت قصاب نے یہ کام کچھ زیادہ ہی اچھے طریقے سے کیا اور مرغے کی گردن کا زیادہ تر حصہ بچ گیا اور جب ایک کلوگرام سے زیادہ وزن والا مرغا سر کٹنے کے شاک سے نکلا تو معمول کے مطابق یہاں وہاں پھرنے لگا۔
مرغے کے بچنے کے اس کرشمے نے اسے کھانے کی میز کا حصہ بننے سے بچالیا البتہ لوئیڈ اولسن نے اسے مرنے کے لیے ایک خالی ڈبے میں رکھ کر چھوڑ دیا۔
اگلی صبح جب ڈبے کو کھولا گیا تو وہ سرکٹا مرغا تاحال زندہ تھا۔
لوئیڈ اولسن گھوڑا گاڑی میں درجنوں مرغیوں کو فروخت کرنے کے لیے قصبے کے لیے روانہ ہوئے تو انہوں نے مائیک کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔
برسوں بعد لوئیڈ کے پڑپوتے ٹوری واٹرز نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ قصبے میں جاکر لوئیڈ اولسن نے لوگوں سے شرط لگائی کہ اس کے پاس ایک سرکٹا مرغا زندہ موجود ہے۔
19 ستمبر کو انہوں نے سالٹ لیک سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس مرغے کو پیش کیا۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہر صبح ہمیں توقع ہوتی ہے کہ مائیک مرچکا ہوگا مگر وہ اب بھی صحت مند ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ مائیک کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس کا سر کٹ چکا ہے۔
وہاں یوٹاہ یونیورسٹی کے ماہرین نے مائیک کا جائزہ لیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ سر کٹنے کے باوجود زندہ کیسے ہے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ مائیک کے دماغ کا بیشتر حصہ اور ایک کان بچ جانے والی شہہ رگ میں موجود ہے جبکہ ایک کلاٹ کے باعث زخم سے خون بہہ نہیں رہا، جس کے باعث وہ زندہ بچ گیا۔
کچھ سال بعد سائنسدانوں نے مائیک کے بچ جانے پر مزید روشنی ڈالی۔
آرکنساس یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق چکن کی کھوپڑی میں آنکھوں کے لیے بہت بڑا سوراخ ہوتا ہے جس کے باعث دماغ کا بیشتر حصہ 45 ڈگری اینگل میں جھکا ہوتا ہے۔
اسی طرح نیو کیسل یونیورسٹی کے محققین نے بتایا کہ چکن کے سر کے اگلے حصے میں بہت کم دماغ ہوتا ہے، تو اگر سر کا کچھ حصہ کاٹ بھی دیا جائے تو بھی بیشتر حصہ باقی رہتا ہے، جس سے وہ سانس لے پاتا ہے، اردگرد گھومتا ہے، غذا ہضم کرلیتا ہے اور بھی بہت کچھ کرسکتا ہے۔
مگر یہاں یہ سوال بھی ہے کہ آخر سر کٹ جانے کے بعد خوراک کو جسم میں پہنچانا کیسے ممکن ہوا؟ تو یہ کام لوئیڈ اولسن نے کیا۔
مائیک کی غذائی نالی ٹھیک کام کررہی تھی تو اس کا مالک ایک ڈراپر سے پانی، دودھ اور اناج اس میں داخل کردیتا، جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ مرغے کا وزن لگ بھگ ساڑھے 3 کلوگرام سے زیادہ ہوگیا۔
لوئیڈ اولسن نے اپنے ایک دوست ہوپ ویڈ کے ساتھ سڑکوں پر مائیک کے شوز کیے جن میں 25 سینٹ کے عوض داخلہ ممکن تھا۔
اس مرغے کو الاسکا اور بھارت سے مداحوں کے خطوط بھی موصول ہوئے جبکہ لائف میگزین نے ایک پورا مضمون اس پر شائع کیا۔
جنوری 1947 میں ایک رات مرغے کی سانس کی نالی بند ہوگئی اور لوئیڈ اولسن اسے بروقت کھولنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں مائیک چند منٹ کے اندر مرگیا۔
ٹوری واٹرز کے مطابق ان کے پردادا نے کچھ عرصے تک لوگوں سے مائیک کی موت کو چھپا کر رکھا۔
اب بھی Fruita میں مائیک کا ایک مجسمہ موجود ہے جبکہ اس کی یاد میں ایک سالانہ میلے کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔