فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی علامت تربوز

تربور کسی کے ہاتھ میں ہو، کسی آرٹ میں یا کسی آن لائن پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا گیا ہو، یہ پھل فلسطینی عوام کے لیے ایک طاقتور علامت بن چکا ہے۔ 

7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی بمباری سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 19 ہزار 76 سے متجاوز ہو چکی ہے جبکہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے ہیں، شہید اور زخمی ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔

غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق شمالی لندن میں احتجاجی ریلی کے دوران مظاہرین اسرائیلی سفیر کے گھر کے سامنے پہنچ گئے جہاں انہوں نے فلسطین آزاد کرو اور غزہ میں جنگ بند کرو کے نعرے لگائے۔

WAQAR

سوئیڈن میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کیا گیا اور دارالحکومت اسٹاک ہوم میں فلسطینی پرچم تھامے سینکڑوں افراد کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔

 اسرائیلی حماس جنگ شروع ہونے کے بعد تربوز کی تصاویر ایک بار پھر بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جارہی ہیں اور اسے فلسطینی عوام سے اظہار ہکجہتی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

تربوز فلسطینیوں کی علامت کیسے بنا؟ 

تربوز کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی علامت کے طور پر استعمال ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ پہلی بار 1967 میں 6 روزہ جنگ کے بعد سامنے آیا ، جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کر لیا۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت اسرائیلی حکومت نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی پرچم کی عوامی نمائش پابندی لگاتے ہوئے اسے ایک مجرمانہ جرم قرار دیا تھا۔

اسرائیلی حکومت نے صرف جھنڈے پر پابندی نہیں لگائی تھی بلکہ اس جھنڈے میں استعمال ہونے والےرنگوں کو کسی پینٹنگ میں استعمال سے بھی منع کیا۔

WAQAR

 فلسطینی آرٹسٹ سلیمان منصور نے 2021 میں دی نیشنل کو بتایا تھا کہ اسرائیلی حکام رام اللہ میں 79 گیلری میں ایک نمائش بند کر دی تھی۔ان کاکہنا تھا کہ فلسطینی پرچم کو پینٹ کرنا تو منع ہی ہے بلکہ اس جھنڈے میں استعمال ہونے والے رنگوں کا استعمال بھی ممنوع تھا۔

تاہم پابندی سے بچنے کے لیے فلسطینی عوام نے جھنڈے کی جگہ تربوز کو بحیثیت فلسطینیوں کی نمائندگی کے نشان کے طور پر استعمال شروع کر دیا کیونکہ جب اس پھل کوکاٹا جاتا ہے تو اس کا رنگ فلسیطنی جھنڈے کے رنگوں(سرخ، سیاہ، سفید اور سبز) کی طرح ہوتا ہے۔

اس کے بعد یہ پھل فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کی علامت کے طور پر استعمال ہونے لگا۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے 1993 میں فلسطینی پرچم پر سے پابندی اٹھا لی تھی۔


تربوز دوبارہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی علامت  بن گیا

2021 میں تربوز کا بطور فلسطینیوں کی نمائندگی کی علامت استعمال اس وقت دوبارہ شروع ہوا جب اسرائیلی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا  کہ مشرقی یروشیلم میں شیخ جراح محلے میں مقیم فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا جائے گا تاکہ آباد کاروں کے لیے راستہ بنایا جا سکے۔

WAQAR

رواں سال جنوری میں اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر نے پولیس کو فلسطینی جھنڈوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد ایک بار پھر تربوز کو فلسیطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

Previous Post Next Post