کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے

 جس طرح ایک ذرہ ریگ میں پورا صحرا سمٹ آتا ہے اور ایک قطرہ آب پورے سمندر کا ترجمان ہوتا ہے، اسی طرح انسانی جسم کا ایک خلیہ پورے جسم کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہر خلیے میں زندگی سانس لیتی ہے اور ایک جیتاجاگتا وجود کروٹیں بدلتا ہے۔



ہر خلیے میں وہ ڈی این اے ہوتا ہے ، جو انسان کو کائنات کا منفرد کردار بخش دیتا ہے۔ ایسا کردار جو نشانِ ا نگشت کی طرح باقی دْنیا سے مختلف ہوتا ہے۔ خلیات ختم ہوجائیں تو زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی یوںہوتا ہے کہ یہی خلیات اپنی شکل تبدیل کرلیتے ہیں اور تیزی سے تعداد میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خلیات کا یہ بدلا ہوا رویّہ سرطان یا کینسرکو جنم دیتا ہے۔

اس مرض کو سنگین بنانے میں عوام الناس کی ناواقفیت اور کوتاہی کا بڑا دخل ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے، تو سرطان سے مکمل نجات ممکن ہے۔ اسی مقصد کی خاطر 2000ء میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں انسانیت کا درد رکھنے والے بہت سے لوگ جمع ہوئے ۔ انھوں نے ہرسال 4 فروری کو ’ سرطان سے بچاؤ کا عالمی دِن ‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

بعدازاں اقوامِ متحدہ نے بھی اس فیصلے کی تائید کی۔ یوں پچھلے23 برسوں سے اس اہم دِن کو منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عام طورپر ہر سال کسی بھی عالمی دِن کا ایک مرکزی موضوع یا تھیم ہوتاہے، مگر سرطان کے حوالے سے تین سالوں یعنی 2022ء سے 2024ء تک کے لیے ایک مشترکہ موضوع طے کیا گیا ہے :Close the care gap۔ اس موضوع کا تقاضا یہ ہے کہ دْنیا بَھرمیں سرطان کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال میں جو تفاوت پایا جاتا ہے، اسے ختم کیا جائے اور تمام مریضوں کو یکساں درجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

بلاشبہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے کینسر سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی وجوہ اور پورے عمل کو آسان پیرائے میں بیان کردیا جائے۔


انسانی جسم بے شمار خلیات یا Cells کا مجموعہ ہوتا ہے۔مختلف اعضاء کے خلیات دوسرے اعضاء سے مختلف ہوتے ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ خلیہ زندگی کی بنیادی اکائی کا دوسرا نام ہے۔ خلیات کی اپنی زندگی کا مخصوص دورانیہ ہوتا ہے۔ فطر ت کی منصوبہ بندی کے تحت خلیات پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی کا دورانیہ پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ مرنے والے خلیات کی جگہ نئے خلیات سنبھال لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتارہتاہے، یوںا نسانی زندگی بھی پیہم رواں رہتی ہے۔

Previous Post Next Post